Orhan

Add To collaction

دل سنبھل جا ذرا

دل سنبھل جا ذرا 
از قلم خانزادی 
قسط نمبر14

حنان اور منال پورا دن باہر گزار کر شام کو تھکے ہارے گھر آئے۔۔منال بہت خوش تھی آج۔۔۔جب سے نکاح ہوا تھا۔۔حنان آج اسے کہی باہر سیر کروانے کے لیے لے کر گیا تھا وہ تو وہ اس گھر میں قید ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔۔!!!!!!
جب وہ دونوں ہنستے مسکراتے گھر واپس آئے تو ماہم سب کے ساتھ بیٹھی تھی ٹی وی لاونج میں۔۔۔ان دونوں کو دیکھتے ہی اپنی ماما سے بات کرنا شروع ہو گئی۔۔۔!!!!
آئی ایم سوری ماما۔۔آپ کو بہت تنگ کیا میں نے صبح۔۔۔میری وجہ سے آپ بہت پریشان ہوئیں۔۔۔!!!!!!!!!
لیکن اب میں یہاں رہنا چاہتی ہوں۔۔۔جب تک آپ کا دل چاہے۔۔۔مجھے معاف کر دیں پلیز۔۔۔میں نے آپ کو بہت تنگ گیا۔۔۔۔!!!!!!
وہ تو شکر ہے حنان مجھے منانے آ گیا۔۔۔۔حنان نے مجھے کہا کہ نا جاو۔۔تو اسی وجہ سے میں رک گئی۔۔!!!!!!!!!!!
اپنے نام پر حنان کے سیڑھیوں کی طرف بڑھت قدم رک گئے۔۔۔جبکہ منال تو پہلے ہی دادی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔!!!!!!
حنان غصیلی نگاہوں سے ماہم کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔یہ سب وہ اسے ہی سنانے کے لیے بول رہی تھی۔۔۔!!!!!!!!!/
کیونکہ حنان چاہتا تھا کہ ماہم جلد ازجلد یہاں سے چلی جائے۔۔۔۔لیکن ماہم اب ضد لگا رہی تھی حنان کے ساتھ کہ اب وہ یہاں سے نہی جائے گی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
اس سے پہلے کہ حنان کچھ بولتا اس کے فون کی رنگ ٹون بجی۔۔۔۔وہ ایک غصیلی نظر ماہم پر ڈالتے ہوئے فون کان سے لگائے اوپر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔!!!!!
مرضی ہے تمہاری اے لڑکی۔۔۔جو مرضی کرو۔۔ماں کی تو کوئی پرواہ ہی نہی ہے تمہیں۔۔جب دیکھو اپنی من مانیاں کرتی رہتی ہو۔۔ماہم کی ماما کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ گئیں۔۔۔۔!!!!!!!!
ہانی نے منال کی طرف انگوٹھے سے اشارہ کیا۔۔۔کہ بہت اچھا کام کیا ہے تم نے۔۔۔۔اور ماہم نے مسکراتے ہوئے اس کی داد وصول کی۔۔۔۔!!!!!
وہ یہ سب کچھ ہانی کے کہنے پر ہی تو کر رہی تھی۔۔۔ہانی نے ہی اسے کہا کہ وہ یہاں سے نہ جائے۔۔۔اور یہی رہ کر حنان کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔۔۔!!!!!!!!!
وہ دونوں کب سے نیچے بیٹھیں حنان کا انتظار کر رہیں تھیں۔۔۔تا کہ حنان آئے اور ماہم اپنی چال چلے۔۔۔حنان کو چیلنج کرنا چاہتی تھی وہ کہ کر لو جو کرنا ہے اب میں یہاں سے کہی نہی جانے والی۔۔۔۔!!!!!
فون پر ملنے والی خبر سے حنان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔۔!!!!!!
میں ابھی آ رہا ہوں۔۔۔ویل ڈن۔۔۔کہتے ہوئے حنان نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔۔۔اور نیچے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔!!!!!!
مام میں کچھ دیر تک گھر آ جاوں گا۔کہتے ہی حنان تیزی سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔کہ تو وہ مام سے رہا تھا۔۔۔لیکن دھیان اس کا منال کی طرف تھا۔۔۔۔!!!!!!
منال پریشان ہو چکی تھی۔۔۔کہ ابھی تو ہم گھر آئے ہیں۔۔۔اور اب پھر سے حنان باہر جا رہے ہیں۔۔۔وہ بھی اتنی جلدی میں۔۔۔یا اللہ سب خیریت ہو منال نے دل میں دعا مانگی۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
حیدر نے اوپر سے دیکھ لیا تھا ماہم اور ہانی کو ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے۔۔۔۔۔!!!!!
حیدر کی سمجھ میں نہی آئی ان دونوں کی یہ حرکت اسے یہ بات کچھ ہضم نہی ہوئی۔۔۔وہ نیچے آ کر ان دونوں کے صوفے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔خود کو فون پر مصروف ظاہر کرتے ہوئے۔۔۔۔!!!!!
ان دونوں کی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔لیکن وہ دونوں بہت آہستہ بات کر رہی تھیں۔۔۔۔حیدر کو ان کی کسی بات کی سمجھ نہی آئی۔۔۔۔!!!!!!
کیا چل رہا ہے ان دونوں کے درمیان۔۔۔حیدر کو جاننے کے لیے تجسس ہوا۔۔۔۔وہ جان بوجھ کر ہانی کے ساتھ صوفے پر بچی خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
حیدر کو بس حنان کے نام کی سمجھ آئی تھوڑی سی۔۔۔لیکن باقی اسے کچھ سمجھ نہی آئی۔۔۔۔اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!
وہ ایک دم اٹھ کر ان کے سامنے جا رکا۔۔۔۔یہ کیا باتیں چل رہی ہیں تم دونوں کے درمیان۔۔۔اور کیا اشارے کر رہی تھیں تم دونوں۔۔۔۔حیدر بھنوئیں اچکاتے اچکاتے ہوئے بولا۔۔۔!!!!!!
ماہم اور ہانی کی تو جیسے سٹی گم ہو گئی۔۔۔وہ اچانک حیدر کے سوالوں پر ڈر گئیں۔۔۔انہیں لگا حیدر نے ان دونوں کی باتیں سن لی ہیں۔۔۔۔وہ گھبراتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ پڑی۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
اب بولو بھی کچھ تم دونوں سانپ سونگھ گیا ہے کیا۔۔۔میں جانتا ہوں تم دونوں حنان کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔۔۔۔سہی کہ رہا ہوں نا میں۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
اب تو واقعی دونوں کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔ان کو لگا کہ بس اب ہماری چوری پکڑی گئی ہے۔۔۔لیکن اگلے ہی پل۔۔ہانی خود کو سنبھالتے ہوئے بول پڑی۔۔۔!!!!!!!!!
تم سے مطلب۔۔۔ہم جو مرضی باتیں کریں۔۔۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔۔!!!!!
ہانِی کے جواب پر حیدر نے اسے غصے سے گھورا۔۔۔مطلب ہے۔۔۔تم اس گھر میں مہمان ہو مہمانوں کی طرح رہو۔۔۔حیدر نے ہلکی آواز میں اسے وارننگ دی۔۔۔کیونکہ پاس اس کے پاپا بیٹھے تھے۔۔۔۔!!!!!!
ایک منٹ میں تمہیں دھکے مار کر نکلوا دوں گا یہاں سے سمجھی۔۔۔۔حیدر نے اسے انگلی دکھائی۔۔۔۔!!!!!!!!!!
کچھ دن صبر کر لو بییٹا۔۔۔تمہیں اور تمہاری ساری فیملی کو یہاں سے دھکے مار کر نا نکلوایا تو میرا نام بھی ہانی نہیی۔۔۔۔۔ہانی دل ہہی دل میں مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔!!!!!
لیکن بولی کچھ نہی۔۔۔بس حیدر کو گھورتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
وہ نہی چاہتی تھی کہ اپنی کسی بے وقوفی کی وجہ سے بنا بنایا کام بگڑ جائے۔۔۔۔اس لیے اس نے صبر کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔اور وہاں سے اٹھ کر جانے میں ہی بھلائی سمجھی۔۔۔۔!!!!!!!
حیدر کیا مسلہ ہے تمہیں۔۔۔آخر ہانی سے کس بات کی لڑائی ہے تمہاری۔۔۔جب دیکھو اس سے لڑائی کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہو تم۔۔۔۔مہمان ہے وہ ہماری۔۔۔ہانی کے جاتے ہی ماہم اس کی طرف داری میں بول پڑی۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
مسلہ اسے ہے مجھے نہی ماہم۔۔۔مہمان ہے تو مہمانوں کی طرح رہے۔۔۔اور مہمان ایک دو دن کا ہوتا ہے۔۔۔مہینوں کا نہی۔۔۔۔اب اسے یہاں سے چلی جانا چاہیے۔۔۔۔۔اب تو حنان کی بھی شادی ہو گئی ہے۔۔۔۔!!!!!!!!
اس کا پیچھا چھوڑ دے اب۔۔۔ایسے ہی فضول میں تنگ کر رکھا ہے اس نے۔۔۔اور تم اس کی طرف داری مت کیا کرو۔۔۔تم ابھی اسے جانتی نہی ہو۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
اور کوشش کرو کہ اس سے دور رہو۔۔۔یہ کسی کی سگی نہی ہے۔۔۔۔آستین کا سانپ ہے یہ ہانی۔۔۔۔میری بات اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھا لو تم کہتے ہوئے حیدر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔!!!!!!
حیدر کی بات پر ماہم سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔لیکن اگلے ہی پل سر جھٹکتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔اس کی تو عادت ہے ہر کسی سے جھگڑنے کی۔۔۔!!!!!
احسن ابھی ابھی تھکا ہارا ہوسپٹل سے آ کر اپنے کمرے کی طرف گیا ہی تھا کہ اسے منال گزرتی نظر آئی اپنے کمرے کے سامنے سے۔۔۔احسن نے منال کو آواز دے کر روکا تو منال سلام کرتے ہوئے احسن کے کمرے میں داخل ہو گئی۔۔۔۔!!!!!!!
جی احسن بھائی۔۔۔کوئی کام تھا آپ کو۔۔۔۔منال کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔۔۔!!!!!
نہی۔۔۔مجھے کوئی کام نہی تھا منال میں تو بس یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اب کیسی طبیعت ہہے تمہاری۔۔۔۔ہاتھ کی چوٹ کیسی ہے اب۔۔۔۔احسن منال کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔!!!!!!
جِی احسن بھائی اب میری طبییعت ٹھیک ہے۔۔۔اور ہاتھ کی کل ڈرییسنگ کھولنی ہے۔۔۔اب کافی بہتر ہے پہلے سے۔۔۔منال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
ہممممم ٹھیک ہے اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔احسن منال کو تاکید کرنے والے اندازز میں بولا۔۔۔تو منال مسسکراتے ہوئے بولی جی ٹھیک ہے احسن بھائی۔۔۔!!!!!
تب ہی ماہم کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔اور احسن اور منال کو آمنے سامنے کھڑے مسکرا کر باتیں دیکھ ماہم کو ہانی کی بات سچ لگی۔۔۔جو اس نے بتایا تھا کہ منال اور احسن کے درمیان کچھ ہے۔۔۔!!!!
اس وقت اسے ہانی کی بات پر یقین نہی آیا تھا۔۔۔لیکن اب اسے ہانی کی ایک ایک بات سچ لگنے لگ پڑی تھی۔۔۔وہ شاک کی سی کیفیت میں کھڑی تھی۔۔۔۔!!!!!!
میں چلتی ہوں احسن بھائی۔۔۔منال مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔!!!!!
کِیا ہوا ماہم ایسے کیوں کھڑی ہو گڑیا۔۔کوئی کام تھا کیا۔۔منال کے جاتے ہی احسن ماہم کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔!!!!
بھائی وہ میں تو یہ کہنے آئی تھی کہ کھانا لگ گیا ہے آپ آ جائیں جلدی فریش ہو کر۔۔۔۔۔۔لیکن یہاں تو مجھے کچھ اور ہی دیکھنے کو ملا ہے۔۔۔۔!!!!!
کیا مطلب۔۔۔احسن کو ماہم کی بات تھوڑی عجییب لگی۔۔۔۔!!!!!!
اس کا مطلب ہانی سچ کہ رہی تھی۔۔۔کب سے چل رہا ہے یہ سب آپ کے اور منال کے درمیان۔۔۔۔ماہم احسن کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔!!!!
کیا کہا تم سے ہانی نے۔۔۔احسن بات کا مطلب سمجھا تو غصے سے ماہم کی طرف بڑھا۔۔۔اسے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ رک گیا۔۔۔۔!!!!!
ماہم بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ کیا کہ رہی ہو۔۔۔مجھے تم سے اس حرکت کی بلکل امید نہی تھی۔۔۔وہ حنان کی بیوی ہے۔۔۔اگر حنان نے یہ سن لیا تو سوچو کیا ہو گا۔۔۔۔احسن غصہ کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔!!!!!
مجھے بھی آپ سے یہ امید نہی تھی بھائی۔۔۔آپ ایک غیر لڑکی کے لیے مجھ پر ہاتھ اٹھائیں گے۔۔۔ماہم کہ کر روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
آج سے پہلے کبھی ایسا نہی ہوا تھا۔۔ماہم پر کسی نے کبھی ہاتھ نہہی اٹھایا تھا۔۔۔وہ بہت لاڈلی بہن تھی اپنے دونوں بھائیوں کی۔۔۔۔احسن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔۔لیکن تب تک ماہم جا چکی تھی۔۔۔۔۔!!!!!!!!
اس میں ماہم کی کوئی غلطی نہی تھی۔۔۔۔یہ ساری غلاظت ہانی نے بھری تھی اس کے دماغ میں۔۔۔۔لیکن ماہم کو اپنے بھائی پر یقین ہونا چاہیے تھا۔۔۔اس نے بھی تو ہانی کی ہر بات پر یقین کرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔!!!!!
احسن غصے سے ہانی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔ہانی بیڈ پر بیٹھی فون پر لگی تھی۔۔۔احسن نے اسے بازو سے کھینچتے ہوئے اپنے سامنے کھڑا کیا۔۔۔!!!!!!!!!!!
ہانِی اس حملے پر بوکھلا کر رہ گئی۔۔۔۔پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہی آئی۔جب سنبھلی تو سامنے احسن کو کھڑے دیکھ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔۔۔۔!!!!!!!
کیا مسلہ ہے۔۔۔یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔ڈاکٹر احسن۔۔ہانی غصے سے سیخ پا ہوتے بولی۔۔۔۔!!!!!
احسن نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے دیوار سے لگا دیا۔۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی ماہم سے ایسی بات کرنے کی۔۔۔آج میں تمہیں نہی چھوڑوں گا۔۔ختم کر دوں گا میں تمہیں۔۔۔۔!!!!!!
ہانی کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔اس نے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن احسن کی گرفت مظبوط تھی۔۔۔۔!!!!
ہانِی کی حالت خراب ہوتے دیکھ احسن نے اسے چھوڑ دیا۔۔۔ہانی زور سے کھانستے ہوئے وہی زمین پر بیٹھ کر اپنا سانس بحال کرنے لگ پڑی۔۔۔۔!!!!
میں نے تمہیں پہلے بھی منع کیا تھا لیکن تم باز نہہی آئی۔۔۔۔اب یہ لاسٹ وارننگ ہے تمہیں۔۔۔احسن اس کے بالوں سے پکڑتے ہوئے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!
یہ تو بس ایک چھوٹا سا ٹریلر تھا۔۔۔اگر تم باز نہہی آئی۔۔تو پوری مووی دکھاوں گا میں تمہیں اینڈ تک۔۔۔کہ کر احسن اسے چھوڑتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔!!!!!
اس دن والا تھپڑ۔۔۔اور یہ ٹریلر بہت مہنگا پڑے گا تمہیں ڈاکٹر احسن۔۔۔۔وہ بھی بہت جلد۔۔۔یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔ہانی اٹھ کر گلاس میں پانی ڈال کر پورا گلاس ایک ہی سانس میں گلے میں اتار گئی۔۔۔۔!!!!!
بہت جلد تم سب کی خوشیوں کو گرہن لگنے والا ہے ڈاکٹر احسن۔۔۔تمہاری اس جان سے پیاری بہن اور جان سے پیارے بھائی حیدر کو۔۔۔جس پر تم اپنی جان چھڑکتے ہو۔۔۔۔!!!!!
ایسی جگہ پہنچاوں گی جہاں پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے یہ لوگ۔۔۔اور جس گھٹن کا احساس تم نے آج مجھے دلایا ہے نا۔۔۔ایسی موت پل پل دوں گی میں تمہارے ان دو جان سے پیاروں کو۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!
ابھی تم مجھے جانتے نہی ڈاکٹر احسن۔۔۔تم مجھے ایزی لے رہے ہو۔۔۔یہ تمہاری بہت بڑی بھول ہے کہ میں تمہاری ان چھوٹی موٹی دھمکیوں سے ڈر جاوں گی۔۔۔!!!!!!
میں ہانی ہی ہانی۔۔۔۔دشمن بھی مجھ سے پناہ مانتے ہیں۔۔۔۔ابھی تم نے میرا اصلی روپ دیکھا نہی۔۔بہت جلد دکھاوں گی میں تمہیں۔۔۔ہانی کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے فون اٹھا کر کان سے لگا کر کسی سے بات کرنے میں مصروف ہو گئی۔۔۔!!!!!
حنان مطلوبہ جگہ پر پہنچا تو دو آدمی گیٹ کھولتے ہوئے اسے اندر لے گئے۔۔۔حیدر نے ایک ایک پیکٹ دونوں کو پکڑا دیا۔۔۔ویری گڈ۔۔۔باقی کے پیسے ادھوارا کام ختم ہونے پر مل جائیں گے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!
کہاں ہے وہ۔۔۔۔حنان بولا تو وہ دونوں ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہیں رک گئے۔۔۔۔حنان کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔!!!!
سامنے کرسی پر ایک خوش شکل پچیس سالہ نوجوان کرسی پر باندھا ہوا تھا۔۔۔حنان کو دیکھتے ہی وہ غرایا۔۔۔۔کیوں باندھ کر رکھا ہے مجھے یہاں۔۔۔میرا قصور کیا ہے آخر۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
اسے دیکھتے ہی حنان کے چہرے پر تلخی کے آسار چھا گئے۔۔۔حنان اس کی طرف بڑھا اور اس کےجبڑے کو دبوچ لیا۔۔۔۔قصور۔۔۔۔سب تمہارا ہی تو قصور ہے۔۔۔کیا قصور ہے تمہارا ابھی پتہ چل جائے گا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
پہلے تمہاری خدمتیں تو کر لیں۔۔۔بہت مشکل سے ہاتھ لگے ہو۔۔۔اتنی آسانی سے تو نہی جانے دیں گے تمہیں۔۔۔۔حنان نے آواز دی تو دونوں بندے اندر آ گئے۔۔۔جِی باس۔۔۔دونوں ہم آواز ہو کر بولے۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!
اس کی اتنی خاطر تواضع کرو کہ آواز مجھے باہر تک آنی چاہیے۔۔۔۔کہتے ہوئے حنان کمرے سے باہر نکل کر فون کان سے لگاتے ہوئے۔۔صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔!!!!!
منال کے فون کی رِنگ ٹون بجی تو جلدی سے فون کی طرف بڑھی۔۔۔حنان کالنگ دیکھا تو اس کے دل کو سکون ہوا۔۔۔جلدی سے کال پک کر لی۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
منال کہاں ہو۔۔۔۔منال کے فون اٹھاتے ہی حنان بول پڑا۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟
مِیں اوپر کمرے میں ہوں۔۔۔۔آپ کہاں ہیں۔۔۔اتنی جلدی میں گھر سے باہر نکل گئے آپ پریشان ہو گئی تھی میں۔۔۔۔۔!!!!!!
پریشان مت ہوا کرو یار یہیں ہوں میں۔۔۔میں نے یہی کہنے کے لیے فون کیا تھا کہ اوپر چلی جاو اور آرام کر لو۔۔۔تھکی ہوئی ہو۔۔۔۔۔!!!!!!!!
 میں کچھ دیر تک واپس آ جاوں گا۔۔۔پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے ایک ضروری کام ختم کرنے آیا ہوں۔۔۔دعا کرو کامیابی ملے آج مجھے۔۔۔۔۔۔حنان اپنی بات ختم کرتے ہی فون بند کر دیا۔۔۔۔!!!!!!
کیونکہ اندر سے اس شخص کے چلانے کی آوازیں  آنی شروع ہو گئی تھیں۔۔۔۔حنان نہی چاہتا تھا کہ منال تک وہ آواز پہنچے۔۔۔اگر منال سن لیتی تو پریشان ہو جاتی۔۔۔!!!!!
فون بند کر کے حنان وہیں بیٹھ گیا۔۔۔کچھ دیر بعد ایک آدمی واپس آیا حنان کے پاس۔۔۔سر بہت مار مار لی اس کو لیکن یہ ایک بھی لفظ اگلنے کو تیار نہی ہے۔۔۔۔اب کیا کریں اس کا۔۔۔۔!!!!!
مارتے رہو تب تک جب تک یہ منہ نہی کھولتا۔۔۔اس کا منہ کھلوانا بہت ضروری ہے۔۔۔آج رات اس کا منہ کھلوانا بہت ضروری ہے۔۔پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔۔۔۔جلدی اس کا منہ کھلواو اس سے پہلے کہ اس کے محافظ یہاں پہنچ جائیں۔۔۔۔۔!!!!!!
میں اب گھر جا رہا ہوں۔۔۔صبح چکر لگاوں گا۔۔۔مجھے انفارمیشن دیتے رہنا۔۔۔کہ کر حنان وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔!!!!!!
حنان گھر پہنچا تو حیدر ٹی وی لاونج میں بیٹھے اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔!!!!!!
کہاں تھے تم۔۔۔کب سے انتظار کر رہا تھا میں تمہارا۔۔۔اتنی دیر تک کہاں تھے تم۔۔۔۔جواب دو مجھے حیدر حنان کے آتے ہی اٹھ کھڑا ہو۔۔۔اور سوال پے سوال کرتا گیا۔۔۔۔!!!!!!!
حنان ہنسنے لگ پڑا۔۔۔بجائے حیدر کے سوالوں کے جواب دینا کہ۔۔۔حنان کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔۔۔ہنسی کنٹرول نہی کر پا رہا تھا وہ اپنی۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
حنان کو ہنستے دیکھ کر حیدر نے تیوری چڑھائی۔۔۔ہنسنے والی تو کوئی بات نہی کی میں نے۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
حنان پھر بھی ہنسی جا رہا تھا۔۔۔۔۔!!!!!
اچھا ٹھیک ہے ہنستے رہو تم میں جا رہا ہوں۔۔۔حیدر وہاں سے جانے لگا تو حنان کی ہنسی کو بریک لگی۔۔۔۔اچھا سوری یار مزاق کر رہا تھا۔۔۔حنان اسے روکتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!
یہ بتاو اتنا ہنس کیوں رہے تھے تم۔۔۔حیدر منہ بناتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!!!
وہ اس لیے کیونکہ تم عورتوں کی طرح سوال پوچھ رہے تھے۔۔۔ایسے سوال تو بیوی کرتی ہے جیسے سوال تم مجھ سے کر رہے تھے گھر میں داخل ہوتے ساتھ ہی۔۔۔اسی لیے مجھے ہنسی آ گئی۔۔۔۔!!!!!
حیدر نے کندھے اچکا دئیے۔۔۔۔لیں جی اب محترم کو ہر کسی میں اپنی بیوی نظر آنے لگ پڑی ہے۔۔۔۔کہ کر حیدر نے قہقہ لگایا۔۔۔۔!!!!
حنان مسکرا دیا۔۔۔اب ایسی بات بھی نہی ہے۔۔۔خیر یہ بتاو۔۔میرا انتظار کیوں کر رہے تھے تم اتنی دیر تک۔۔۔۔حنان مطلب کی بات پر آیا۔۔۔۔۔!!!!!!
وہ اس لیے کہ مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی ہانی کے بارے میں۔۔۔۔۔حیدر نے جواب دیا۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
ہانِی کے بارے میں کیا بات کرنی ہے تمہیں۔۔۔۔حنان ہانی کے نام پر چونکا۔۔۔۔!!!!!
یہی کہ یہ کب تک یہاں رہے گی یار۔۔۔اب اسے چلی جانا چاہیے یہاں سے۔۔۔آج اس کی وجہ سے میری اور ماہم کی لڑائی ہو گئی۔۔۔یہ دونوں آہستہ آواز میں کوئی بات کر رہی تھیں۔۔۔۔!!!!!!
اور وہ بھی تمہارے بارے میں کوئی خفیہ ڈسکسنگ چل رہی تھی ان دونوں کے درمیان۔۔۔میں نے پوچھا تو صاف مکر گئیں۔۔۔ہانی کہتی تمہیں کیا میں جو مرضی بات کروں۔۔۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔۔۔!!!!!!!!
اس کے بعد ماہم مجھ سے جھگڑنے لگ پڑی۔۔۔ہانی مہمان ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔مجھے تو یہ سمجھ نہی آ رہی کہ ان دونوں کی دوستی کیسے ہو گئی۔۔۔پہلے کبھی دونوں کو اتنا فرینک نہی دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
اس ہانی کو بولو یار کہ یہاں سے دفعہ ہو جائے ورنہ اچھا نہی ہو گا کسی دن مر جائے گی میرے ہاتھ سے۔۔پہلے تو بس مجھے تنگ کرتی تھی۔۔۔اور اب ہم دونوں بہن بھائی میں لڑائیاں کروا رہی ہے۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
حیدر بول رہا تھا۔۔۔لیکن حنان تو کہیں اور ہی گم ہو چکا تھا۔۔۔۔اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہانی ہی ہے جو ماہم کو ایسے آئیڈیاز دے رہی ہے۔۔۔ہوں۔۔۔تو یہ بات ہے۔۔۔۔۔!!!!!!
تم فکر مت کرو حیدر۔۔۔ہانی بہت جلد یہاں سے چلی جائے گی۔۔۔۔۔اس سے بات کروں گا میں۔۔۔۔تم جا کر آرام کرو۔۔۔میں بھی سونے جا رہا ہوں۔۔۔دونوں اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔!!!!
حنان کمرے میں گیا تو منال سو چکی تھی۔۔۔حنان بھی چینج کرنے کے بعد سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔۔۔صبح دوبارہ جانا تھا اسے وہاں۔۔۔۔!!!!!!
صبح حنان نماز پڑھنے کے بعد مارننگ واک کے لیے گیا تو حیدر اور احسن بھی مل گئے ان کو۔۔۔۔تینوں مل کر واک کرنے لگ پڑے گارڈن میں ٹریک پر۔۔۔۔حنان اور حیدر کی بہت اچھی دوستی تھی۔۔۔!!!!!!!!!!!
دونوں کے مزاج ملتے جلتے تھے۔۔یہ دونوں ہنسی مزاق کرتے ٹائم پاس کر لیتے تھے۔۔۔جبکہ احسن ہمیشہ سنجیدہ رہتا تھا۔۔۔بس کام سے کام رکھتا یا پھر اپنی سٹڈی میں مصروف رہتا۔۔۔۔۔یہی بات اسے سب سے دور رکھتی تھی۔۔۔۔!!!!
اور کچھ پڑھائی کی وجہ سے فیملی سے بہت سال دور رہنے کی وجہ سے اسے اکیلے رہنے کی عادت سی ہو چکی تھی۔۔۔۔مگر اب وہ آہستہ آہستہ خود کو چینج کر رہا تھا۔۔۔!!!!!!
فیملی کے ساتھ وقت گزارنا اسے اچھا لگنے لگ ہڑا تھا۔۔۔آج وہ زبردستی حیدر کو اپنے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔پہلے نماز پڑھنے گئے مسجد اور اس کے بعد ٹریک سوٹ پہن کر واک کے لیے نکل پڑے۔۔۔۔۔!!!!!
حیدر بہت اکتایا اکتایا سا لگ رہا تھا۔۔۔حنان بہت دیر سے نوٹ کر رہا تھا۔۔۔آخر بول پڑا۔۔۔۔تمہیں کیا ہوا۔۔۔صبح صبح کسی سے جھگڑا ہو گیا کیا۔۔۔حنان ٹریک پر دوڑتے دوڑتے بولا۔۔۔۔۔۔!!!!!!
نہی یار۔۔۔احسن بھائی نے صبح صبح اٹھا دیا۔۔۔حیدر رکتے ہوئے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے بولا۔۔۔۔دونوں رک گئے تھے۔۔۔۔!!!!!
احسن ان دونوں سے آگے نکل چکا تھا۔۔۔۔احسن نے دونوں کو باتیں کرتے دیکھا تو واپس آ گیا۔۔۔۔ایک ایک ریس ہو جائے۔۔کیا خیال ہے۔۔۔۔احسن کی بات پر  حیدر اور حنان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پہلے۔۔۔۔۔!!!!!
اور پھر احسن کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے دوڑ لگا دی۔۔۔احسن جو ابھی ان کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ان کو ایسے اچانک بھاگتے دیکھ حیران رہ گیا۔۔۔۔۔جب سمجھ آئی تو مسکراتے ہوئے ان کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
تینوں دوڑتے دوڑتے تھک گئے تو رک گئے۔۔۔اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!
احسن بھائی میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔۔آپ ڈاکٹر ہیں۔۔۔خود فٹ رہیں مجھے کیوں صبح صبح تنگ کیا آپ نے۔۔۔میں جا رہا ہوں سونے۔۔۔حیدر جمائی لیتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!!!!!!
کیسے جاو گے۔۔۔پہلے فریش تو ہو جاو۔۔۔احسن آنکھ دباتے ہوئے بولا۔۔۔اور حیدر کو سوئمنگ پول میں دھکا دے دیا۔۔۔۔حنان جو اس کاروائی پر ہنس رہا تھا۔۔۔احسن نے اسے بھی دھکا دیا۔۔۔۔!!!!!
لیکن یہ کیا۔۔۔۔حنان کے ساتھ احسن بھی سوئمنگ پول میں گر گیا۔۔۔۔حنان نے احسن کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ لیا تھا۔۔۔اس نے گرتے گرتے احسن کو بھی ساتھ کھینچ لیا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
یہ تو وہی بات ہو گئی۔۔۔۔خود تو ڈوبیں گے۔۔۔صنم تم کو بھی ساتھ لے ڈوبیں گے۔۔۔۔حیدر کی بات پر تینوں مسکراتے ہوئے پانی سے باہر نکل آئے۔۔کچھ دیر رکے اور پھر اندر کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔!!!!!!!
ارے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم تینوں نے صبح صبح۔۔۔دادو کی ان تینوں پر نظر پڑ چکی تھی۔۔۔۔یہ کپڑے کہاں سے گیلے کئے ہیں تم تینوں نے۔۔۔۔ضرور صبح صبح ٹھنڈے تالاب میں ڈبکی لگا کر آئے ہو تم تینوں۔۔۔۔!!!!!
دادو کی بات پر تینوں گھبرا گئے۔۔۔۔وہ دادو میرا پاوں پھسل گیا۔۔۔غلطی سے گر گیا تھا میں۔۔۔حیدر جلدی سے اپنی جان بچاتے ہوئے بول پڑا۔۔۔۔جبکہ حنان اور احسن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔!!!!!!
تمہارا تو پاوں پھسل گیا تھا۔۔۔اور یہ دونوں کیا کرنے گئے تھے تالاب میں۔۔۔۔!!!!!!
دادو تالاب نہی۔۔۔سوئمنگ پول ہوتا ہے۔۔۔حیدر نے خود اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری۔۔۔۔!!!!!!
بس کر تو انگریز کی اولاد۔۔۔اب دادی کو سکھائے گا۔۔آنے دے تیرے باپ کو ابھی بتاتی ہوں۔۔۔۔دادو کی بات پر حیدر کی سٹی گم ہوئی۔۔۔۔نہی دادو میں تو مزاق کر رہا تھا۔۔حیدر گھبراتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔!!!!!!
یہ دونوں تو بچے ہیں اور احسن تم بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔۔۔!!!!!
میں بھی تو بچہ ہوں دادو میرے کون سے بال سفید ہو گئے ہیں۔۔۔ویسے بھی یہ حنان ہم سب سےبڑا ہے اسی کا آئیڈیا تھا صبح صبح نہانے کا۔۔۔۔!!!!!
احسن کی بات پر حنان نے صدمے سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔میں کیسے بڑا ہوا آپ دونوں سے احسن بھائی۔۔۔حنان جلدی سے بول پڑا۔۔۔۔۔!!!!!
کیونکہ تمہاری شادی ہو چکی ہے جواب حیدر کی طرف سے آیا۔۔۔۔تو حیدر اور احسن ہنس پڑے۔۔۔دادو بھی مسکرا دیں۔۔۔۔خبردار جو میرے بچے کا مزاق بنایا تو۔۔۔کرتی ہوں تم دونوں کا بھی بیاہ۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!
تمہارِی ماں سے کرتی ہوں بات۔۔۔تم دونوں کو بہت جلدی ہے شادی کی۔۔۔۔دادو کی بات پر حنان ہنس پڑا۔۔۔جی جی دادو۔۔۔میں بھی یہی کہنے لگا تھا۔۔۔۔۔!!!!!
احسن اور حیدر نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔۔جبکہ دادو اور حنان دونوں ہنس پڑے۔۔۔اور پھر حنان بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔!!!!!
منال کمرے سے باہر آ رہی تھی تبھی حنان سامنے سے آتا دکھائی دیا۔۔۔اور اسے بازو سے کھینچتے ہوئے واپس کمرے میں لے گیا۔۔کہاں جا رہی ہو صبح صبح۔۔۔میرے کپڑے کون نکالے گا۔۔۔۔!!!!!!!
جی میں نکال دیتی ہوں۔۔۔۔منال جلدی سے الماری کی طرف بڑھ گئی۔۔۔جبکہ حنان منال کی تابعداری پر مسکراتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گیا کپڑے اٹھاتے ہوئے۔۔۔منال الماری بند کر کے نیچے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔!!!!!
ڈیڈ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔ایک گھنٹے تک آفس پہنچ جاوں گا۔۔۔۔حنان ناشتہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔اور ناشتہ کرنے کے بعد خدا حافظ کہتے ہوئے گھر سے نکل گیا۔۔۔۔۔!!!!!!
رات والی جگہ پر دوبارہ پہنچا اور ان آدمیوں سے پوچھا کہ کچھ بولا ہے کہ نہی۔۔۔ان دونوں نے نا میں سر ہلا دیا۔۔۔۔تو حنان غصے سے اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔!!!!!!!
اپنے کوٹ کی جیب میں سے گن نکال کر اس کے سر پر رکھ دی۔۔۔۔۔یہ لاسٹ وارننگ ہے تمہارے لیے۔۔۔تمہیں بہت سمجھا لیا۔۔۔لیکن تم پیار کی زبان سمجھ ہی نہی رہے۔۔۔۔!!!!!
بتاو احد کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟ حنان نے سوال کیا۔۔۔لیکن وہ کچھ نہی بولا۔۔۔۔میں ایک بار پھر سے پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔احد کہاں ہے۔۔۔۔۔وہ پھر بھی کچھ نہی بولا۔۔۔۔۔!!!!!
اب حنان نے گن لوڈ کر کے اس کے سر پر رکھ دی۔۔۔یہ آخری بار پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔اس کے بعد تم بتانے کے لیے زندہ نہی رہو گے۔۔۔بتاو احد کہاں ہے۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!

   1
0 Comments